۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
جنتی چاول

حوزہ/چین نے خلا میں پیدا کیے گئے دھان کو 'اسپیس رائس' یعنی خلائی چاول کا نام دیا ہے، لیکن چینی سوشل میڈیا پر لوگ اسے 'رائس فروم ہیون' یعنی 'جنتی چاول' کے نام سے پکار رہے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،چینی سوشل میڈیا پر 'جنتی چاول' کا تذکرہ زور و شور سے ہو رہا ہے۔ کئی لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ آخر یہ جنتی چاول کیا ہے۔ دراصل چین نے خلاء میں 'دھان' پیدا کرنے کا نیا کرشمہ انجام دیا ہے۔ چین نے خلا میں پیدا کیے گئے دھان کو 'اسپیس رائس' یعنی خلائی چاول کا نام دیا ہے، لیکن چینی سوشل میڈیا پر لوگ اسے 'رائس فروم ہیون' یعنی 'جنتی چاول' کے نام سے پکار رہے ہیں۔

دراصل چین نے گزشتہ سال نومبر میں اپنے 'چندریان' کے ساتھ دھان کے بیج بھی خلاء میں بھیجے تھے۔ اب خلائی طیارہ کے ذریعہ تقریباً 1500 دھان کے بیج زمین پر آئے ہیں۔ ان کا وزن 40 گرام بتایا جا رہا ہے اور ان کو جنوبی چین زراعتی یونیورسٹی احاطہ میں بویا جائے گا۔

#Rice from heaven: #China harvests first batch of rice that returned from Moon last year#Science #RE https://t.co/9Tsd5jTSYW

— IndiaToday (@IndiaToday) July 15, 2021

میڈیا ذرائع سے موصول ہو رہی خبروں کے مطابق خلاء میں یہ بیج کائناتی تابکاری اور صفر کشش ثقل کے رابطہ میں رہے اور پھر ان کو واپس زمین پر لایا گیا ہے۔ یہ تقریباً 40 گرام وزنی ہیں اور ان کی لمبائی تقریباً ایک سنٹی میٹر ہے۔ گوانگ ڈونگ کے جنوب چین زراعتی یونیورسٹی کے خلائی افزائش ریسرچ سنٹر کے ڈپٹی ڈائریکٹر گوؤ تاؤ کے مطابق سب سے بہتر بیج تجربہ گاہوں میں تیار ہوں گے اور اس کے بعد انھیں کھیتوں میں لگایا جائے گا۔

قابل ذکر ہے کہ خلائی ماحول میں کچھ وقت تک رہنے کے بعد بیج میں کئی طرح کی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں اور پھر ان کو وہاں سے واپس لا کر زمین پر بونے سے زیادہ پیداوار ہوتی ہے۔ نہ صرف دھان بلکہ دوسری فصلوں کے ساتھ بھی اس طرح کے استعمال ہوتے رہے ہیں۔ چین تو سال 1987 سے چاول اور دوسری فصلوں کے بیج کو خلاء میں لے جا رہا ہے۔

بلوم برگ کی ایک رپورٹ کے مطابق چین اب تک 200 سے زیادہ فصلوں کے ساتھ اس طرح کا تجربہ کر چکا ہے۔ ان فصلوں میں کپاس سے لے کر ٹماٹر تک شامل ہیں۔ چینی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق سال 2018 میں چین میں 24 لاکھ ہیکٹیئر سے زیادہ علاقہ میں زراعت کے لیے خلاء سے آئے بیج کا استعمال کیا گیا تھا۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .